آج میں ہماری خوراک میں پھلوں کی اہمیت پر بات کرنا چاہوں گا۔ مجھے پختہ یقین ہے کہ پھل ہماری غذا کا ایک لازمی جزو ہیں کیونکہ یہ ہمیں ہماری جسمانی صحت اور نشوونما کے لیے تمام ضروری غذائی اجزاء فراہم کرتے ہیں۔ مزید برآں، تمام پھل اپنی خوبصورت ساخت، دلکش رنگوں، دلکش خوشبوؤں اور مزیدار ذائقے کی وجہ سے ہمارے درمیان ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔ تاہم، مجھے یہ اعتراف کرنا چاہیے کہ میرے اور جنوبی ایشیا کے بہت سے لوگوں کے لیے آم تمام پھلوں کا بادشاہ ہے۔ آم، Anacardiaceae (کاجو) خاندان کا رکن ہے اور Mangifera کی نسل سے تعلق رکھتا ہے، اس کی دنیا بھر میں تقریباً 500 اقسام ہیں، جن کی تقریباً 350 اقسام تجارتی طور پر کاشت کی جاتی ہیں۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ آم ملائیشیا اور انڈونیشیا کےمنطقہ حارا جنگلات میں شروع ہوا اور وہاں سے پوری دنیا میں پھیل گیا۔ جنوبی ایشیا کا برصغیر، جہاں آم اگائے جاتے ہیں، دنیا کی سالانہ آم کی فصل کا ایک بڑا حصہ پیدا کرنے کا ذمہ دار ہے۔
آم کے درخت: اقسام، سائز اور دلچسپ حقائق

جیسا کہ میں آم کے درختوں کے بارے میں معلومات حاصل کر رہا تھا، میں نے دریافت کیا کہ اس کے درخت بھی اپنے پھل کی طرح مختلف سائز میں ہوتے ہیں۔ یہ جاننا دلچسپ ہے کہ آم کے مقامی درخت 30 میٹر اونچائی تک بڑھ سکتے ہیں اور 4-5 میٹر تک پھیل سکتے ہیں۔ یہ سدا بہار درخت ہونے کی وجہ سے یہ سال بھر سرسبز رہتے ہیں اور گرمیوں میں یہ انسانوں اور جانوروں کو اپنے سائے میں پناہ بھی دیتے ہیں۔ دوسری طرف، پیوند شدہ آم کے درخت نسبتاً چھوٹے ہوتے ہیں، جن کی اونچائی 3 سے 15 میٹر تک ہوتی ہے۔ آم کے درخت کا تنا موٹا ہوتا ہے، اور اس کی لکڑی نسبتاً نرم ہوتی ہے، جو اسے فرنیچر اور دیگر مصنوعات کے لیے ایک مثالی مواد بناتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں کہیں بھی درخت کے تنے اور شاخیں زخمی ہوتی ہیں وہاں سے لیس دار رتوبت نکل کر گوند بن کر جم جاتی ہے۔ آم کے درخت کے گوند میں طبی خصوصیات پائی جاتی ہیں اور اسے پھٹی ہوئی جلد کے علاج کے لیے دیسی ترکیبوں میں صدیوں سے استعمال کیا جا رہا ہے۔
جب موسم بہار میں آم کے پھول کھلتے ہیں تو فضا ان کی بھینی بھینی خوشبو سے معطر ہو جاتی ہے

ہم سب جانتے ہیں کہ شہد کی مکھیاں ہمارے ماحولیاتی نظام میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ جب آم کے پیڑ میں پھول لگتے ہیں تو شہد کی مکھیاں ان بھینی بھینی خوشبو والے پھولوں سے عرق کشید کرکے شہد بناتی ہیں۔ آم کے پیڑ میں پھول نکلنے کا دورانیہ بھی کافی طویل ہوتا ہے۔ پیڑ کی شاخوں سے کونپلوں کی جگہ پھولوں کی کئی کئی شاخیں نکلتی ہیں اور ان مرکزی شاخون سے بھی پھر چھوٹی شاخیں نکل کر ایک بڑا سا گچھا بناتی ہیں۔ گچھے کی لمبائی ایک فٹ تک ہوجاتی ہے۔ یہ سارا عمل تقریباً ایک ماہ تک جاری رہتا ہے۔ اس دوران شاخوں کی نشوونما کے ساتھ نئے پھول کھلتے رہتے ہیں۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ شہد کی مکھیاں آم کے باغات میں بڑی تعداد میں چھتے بناتی ہیں۔ خود پھولوں کو نشوونما، بڑھنے اور پکنے میں دو ماہ سے زیادہ کا وقت لگتا ہے، جو اس عرصے کے دوران شہد کی مکھیوں کو اچھا شہد جمع کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
آم کے پکنے کا عمل اور آم کی مقبول اقسام

آم کے پکنے کا عمل اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ پھل کی نشوونما۔ جب پھل کے اندر کی گٹھلی مکمل طور پرنشونما پا کر تیار ہو جاتی ہے تو پھل بھی پکنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت موسم کی گرمی بھی اپنے عروج پر ہوتی ہے، جو آم کے پھل میں رس اور مٹھاس پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ پھلوں کی نشوونما مکمل ہونے کے بعد، مالی درخت سے پھل اتار کر اسے لکڑی کی پیٹیوں میں اچھی طرح بند کر کے اسے پکنے کے لیے محفوظ جگہ پر رکھ دیتا ہے۔ اس طریقہ سے آم کا کچا پھل 4 سے 6 دن میں مکمل پک کر کھانے کے لئے تیار ہوجاتا ہے۔
سندھڑی آم - جنوبی ایشیا میں آموں کا بادشاہ
اگر آپ مجھ سے پوچھیں تو آم جنوبی ایشیا کے تمام پھلوں کا غیر متنازعہ بادشاہ ہے۔ اور اگر آپ کو ان سب سے اعلیٰ آم کی ایک قسم کا انتخاب کرنا پڑے تو سندھڑی آم واضح طور پر آمووں کا بادشاہ ہو گا. سندھڑی آم ایک بیضوی شکل کا ہوتا ہے اور جب پک جاتا ہے تو پتلی جلد کے ساتھ چمکدار پیلا ہو جاتا ہے۔ یہ 15-18 سینٹی میٹر لمبا ہو سکتا ہے اور اس کا وزن 400 سے 500 گرام تک ہو سکتا ہے، لیکن بعض اوقات ایک کلو گرام تک بھی ہو سکتا ہے۔ سندھڑی آم کو جو چیز نمایاں کرتی ہے وہ اس کا نرم اور رس دار گوشت ہے جو آسانی سے خراب نہیں ہوتا ہے، جو اسے آم کی دیگر اقسام کے مقابلے میں کافی لمبی شیلف لائف دیتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سندھڑی آم کو سندھ کی پہچان کے طور پر مانا جاتا ہے. اس کا آبائی وطن میرپورخاص سندھ ہے، جہاں اسے پہلی بار گزشتہ صدی کے آغاز میں کاشت کیا گیا تھا. اگرچہ سندھڑی آم کی کاشت اب پاکستان کے دیگر خطوں میں بھی کی جاتی ہے، لیکن سب سے اعلیٰ معیار کا پھل میرپور خاص سے حاصل ہوتا ہے۔ جو ذائقہ اور اعلیٰ معیار میرپور خاص کے پھل کا ہوتا ہے وہ جنوبی پنجاب تک برقرار نہیں رہتا. سندھڑی آم کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں آم کی تمام اقسام کی پیداوار میں سے 60 فیصد سے زیادہ سندھڑی آم کی پیداوار ہوتی ہے.
آم - برصغیر کی ثقافت میں سرایت شدہ پھل
چار ہزار سال سے زیادہ عرصے سے برصغیر کے لوگوں کا آم کے ساتھ ایک خاص تعلق بنا ہوا ہے جس کی وجہ سے یہ ان کی ثقافت کا لازمی حصہ ہے۔ اس پھل سے ہر کوئی اپنی سماجی حیثیت سے قطع نظر لطف اندوز ہوتا ہے۔ ماضی میں، مکانات بڑے اور آبادی کم ہوتی تھی، تو ان مکانات کے صحنوں میں اکثر آم کے درخت لگائے جاتے تھے۔ ان درختوں کے سائے میں گرمیوں کے دن گزارے جاتے تھے. پیڑوں کی مضبوط ڈالوں سے بندھے جھولوں سے بچے لطف اندوز ہوتے تھے. تب لوگ آم کا پیڑ گھر کے صحن میں اس لئے ضرور لگاتے تھے کیونکہ وہ سایہ دار ہونے کے ساتھ پھلدار بھی ہوتا ہے.
آم کے درخت کی استعداد: پھلوں سے تیل تک

کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ آم کے درخت اپنے کچھ پھل پکنے سے پہلے کیوں جھاڑ دیتے ہیں؟ یہ فطرت کا طریقہ ہے۔ اگر یہ سارے پھل آخر تک پیڑ پر برقرار رہیں تو ان کا وزن پیڑ برداشت نہیں کرپائے گا اور وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے گا۔ اسلئے قدرت نے اس کے بچاؤ کا انتظام اس طرح کیا ہے کہ بڑہوتری کی مدت میں زیادہ تر پھل کچی حالت میں ہی جھڑتے رہتے ہیں. اردو میں ان کچے پھلوں کو ’’کیری‘‘ اور سندھی میں ’’امبڑی‘‘ کہتے ہیں۔ ضائع کرنے کے بجائے، لوگ انہیں مختلف قسم کے مزیدار طریقوں سے استعمال کرتے ہیں۔ ان کچے پھلوں کو پیس کر مٹر، ہری مرچ، پودینہ یا دھنیا کے پتوں کے ساتھ ملا کر مزیدار چٹنی بنائی جاتی ہے۔ انہیں آمچور بنانے کے لیے خشک اور پیس کر استعمال کیا جاتا ہے۔ امچور ایک کھٹا مسالا ہے جو عام طور پر ہندوستانی اور پاکستانی کھانے پکانے میں استعمال ہوتا ہے۔ بڑے کچے آموں کو اچار، جام اور شربت بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، جبکہ آم کے بیج کی گٹھلی 15 فیصد تک انتہائی قیمتی اور مفید تیل پیدا کرتی ہے۔ یہ تیل نہ صرف کھانے کے قابل ہے بلکہ یہ کاسمیٹکس اور ادویات میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ آم کے درخت کا ہر حصہ، پتے سے لے کر گودے تک، قیمتی اور مفید ہے، جو اسے واقعی ایک قیمتی پھل بناتا ہے۔
اعتراف: راقم الحروف اس مضمون کی ابتدائی تحقیق اور خاکہ میں میر الطاف حسین تالپور کی گرانقدر شرکت کا تہہ دل سے شکریہ ادا، اور اعتراف کرتا ہے، جنہوں نے راقم الحروف کی بعد کی تدوین، توسیع اور دوبارہ لکھنے کی کوششوں کی بنیاد رکھی۔ میر عطا محمد تالپور
You must log in to post a comment.